ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
وہ شام جیسے سسک رہی تھی
کہ زرد پتوں نے آندھیوں سے
عجیب قصہ سنا دیا تھا
کہ جس کو سن کر تمام پتے
سسک رہے تھے، بلک رہے تھے
جانے کس سانحے کہ غم میں
شجر جڑوں سے اکھڑ رہے تھے
بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو
ہر ایک رستہ، ہر ایک وادی
ہر ایک پربت، ہر ایک گھاٹی
مگر کہیں سے خبر نہ آئی
یہ کہہ کے ہم نے دل کو ٹالا
ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے
ہم اس کے راستوں کو ڈھونڈ لیں گے
مگر ہماری یہ خوش خیالی
جو ہم کو برباد کر گئی تھی
ہوا تھمی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی
ہمارے بالوں کے جنگلوں میں
سفید چاندی اتر چکی تھی
فلک پہ تارے نہیں رہے تھے
گلاب سارے نہیں رہے تھے
وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
وہ لوگ سارے نہیں رہے تھے
مگر یہ المیہ سب سے بالا تر تھا
کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے
کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن _
No comments:
Post a Comment