ہم سب کے طرفدار ہیں پر دل کے نہیں ہیں
محفل کے ہیں اور رونقِ محفل کے نہیں ہیں
دل خون کیا ہم نے سرِ کوچہٓ قاتل
بسمل ہیں مگر خنجرِ قاتل کے نہیں ہیں
بے نام و نشاں زخم ہیں، سینے میں ہمارے
کچھ وار ہوئے ہیں جو مقابل کے نہیں ہیں
اس رنگ کے طوفاں نے نگاہوں کو ہماری
دکھائے ہیں جو خواب وہ ساحل کے نہیں ہیں
یہ وقت کے صحرا میں بھٹکتے ہوئے راہی
منزل پہ چلے آئے ہیں، منزل کے نہیں ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment